* احباب سب بضد کہ گوہر تراشنا *
احباب سب بضد کہ گوہر تراشنا
اور دل یہ کہہ رہا تھا کہ پتّھر تراشنا
داخل تو ہو گئے ہو بدن کے حصار میں
یہ کوہِ بے ستوں ہے سنبھل کر تراشنا
تیشے کو آب دی ہے لہوُ کی ترنگ سے
آساں نہیں خیال کے پیکر تراشنا
پہلے تو زخم زخم پہ انگور ڈھونڈنا
پھر آپ اپنے واسطے پتّھر تراشنا
چنگاریاں سی بھرنے لگی ہیں بدن میں پھر
موجِ ہوائے شہر میرے پر تراشنا
فرصت مِلے جو تاج کی تعمیر سے کبھی
ننّھا سا پُر سکون سا اِک گھر تراشنا
|