* جب سے قلم کو نامئہ معنی بنا لیا *
جب سے قلم کو نامئہ معنی بنا لیا
ہم نے جگر کے خون کو پانی بنا لیا
یوں ہم نے شہر شہر تیری داستاں کہی
ہر سنگِ رہ کو دشمنِ جانی بنا لیا
میں نے پرو دئے تیرے بالوں میں سرخ پھول
اور اپنے روز و شب کو کہانی بنا لِیا
کیا جانے کس خیال میں اُٹھی تھی وہ نظر
اور ہم نے اُس سے شہرِ معانی بنا لیا
سب محوِ خواب ہوں تو مہک اس کی جاگ اُٹھے
ہم نے غزل کو رات کی رانی بنا لیا
خالدؔ وہ سانحہ تو اُسے یاد بھی نہیں
جو ہم نے عمر بھر کی نشانی بنا لیا
۔
|