* اپنی صورت دیکھنا اور آئینوں کو چُ *
اپنی صورت دیکھنا اور آئینوں کو چُومنا
جاندنی کی نرم کرنو پربتوں کو چوُمنا
پھر سنورنے کی رُتیں آئی ہیں پھر مہکے ہیں پھول
پھر وہی بھونروں کا اَن چھُوئے گلُوں کو چومنا
دوپہر ڈھلتے ہی اپنے آپ سے ہونا جُدا
شہر سے باہر نکلنا پتّھروں کو چُومنا
صبح کی چنچل ہَوا جب اس کے گھر سے ہو گزر
اس کے رخساروں پہ لہراتی لٹوں کو چومنا
اے میری جاں خاک ہو جانا اور اس کی یاد میں
اس کی آنکھوں جیسے نیلے پانیوں کو چو منا
موج کی صورت پٹخنا سر کو اپنے سنگ پر
پتّھروں کو چاہنا یا ساحلوں کو چُومنا
یوں ہُو ا جیسے کنواں پیاس کے پاس آپ آ گیا
ورنہ اپنے بس میں کب تھا اُن لبوں کو چُومنا
رات بھر خا لدؔ ستارے ٹانکنا الفاظ کے
اور دن بھر اپنی لِکّھی لائنوں کو چُومنا
|