* وہ تو گیا، اب اپنی اَنا کو سمیٹ لے *
وہ تو گیا، اب اپنی اَنا کو سمیٹ لے
اے غمگسار! دستِ دعا کو سمیٹ لے
بالوں میں اپنے ڈال لے اب خاک کوئے یار
بانہوں میں اُس گلی کی ہَوا کو سمیٹ لے
مٹّی کی اِک لکیر بھی کہہ دے گی داستاں
چلنے کا شوق ہے تو روا کو سمیٹ لے
ان آبلوں کی روشنی بھٹکے گی شہر میں
اے کوچہ گردا گردشِ پا کو سمیٹ لے
لفظوں کو ترک کر دے کہ اِن کو نہیں ثبات
آنکھوں میں آج اپنی وفا کو سمیٹ لے
بس ایک چُپ ہی تیرے لبوں پر سجی رہے
بس اپنے دل میں سیلِ بلا کو سمیٹ لے
چہرے پہ اہلِ شہر کی آنکھیں سجا کے چل
ورنہ ہجومِ سنگِ سزا کو سمیٹ لے
خالد۔ؔ کبھی تو تذکرۂ جاں سنا ہمیں
اپنی صدا میں خوفِ صدا کو سمیٹ لے
|