* نہ ہوں پیسے تو استقبالیوں سے کچھ ن *
نہ ہوں پیسے تو استقبالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
کسی شاعر کو خالی تالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
نکل آئی ہے ان کے پیٹ سے پتھری شوگر کوٹیڈ
جو کہتی تھیں کہ میٹھی، چھالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
’’ خودی ‘‘ کو بیچ کر ’’ شاہین ‘‘ کو بھی ذبح کر ڈالا
ہم ایسے زود ہضم اقبالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
وہی حضرات تقسیم وطن کے اصل مجرم ہیں
جو کہتے تھے یہاں بنگالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
عبث ہے ان سے اک چڑیا کے بچے کی ولادت بھی
کہ ان فیشن زدہ گھر والیوں سے کچھ نہیں ہو گا
مزا جب ہے کہ زندوں کو سناؤ نغمئہ الفت
کسی کی قبر پر قوالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
یہ بچوں میں اضافہ کر رہے ہیں رات دن خالد
اپوزیشن کے ان ہڑتالیوں سے کچھ نہیں ہو گا
|