* زمین اپنی فضا سے مکرنے والی ہے *
زمین اپنی فضا سے مکرنے والی ہے
بساطِ شام و سحر بھی الٹنے والی ہے
جلا رہی ہے شبِ ماہتاب سورج کو
بجھے ستارے کی اب راکھ اڑنے والی ہے
کوئی کھڑا ہے تماشے کی آنکھ کھولے ہوئے
کسی کی صبح اندھرے میں گرنے والی ہے
اُٹھا رہا تھا میں سینے سے درد کا پتّھر
مجھے لگا کہ نئی چوٹ لگنے والی ہے
بدن سے روح کا رشتہ نہیں نہیں تو نہیں
مری بلا سے بلا جو اترنے والی ہے
نجانے کب سے مقدّر تو مر چکا ساحلؔ
اب اس کی لاش خلاؤں میں جلنے والی ہے
****** |