* اک شجر تھا ہوا سے اُلجھا ہوا *
خالد ملک ساحل
اک شجر تھا ہوا سے اُلجھا ہوا
ایک سایہ دُعا سےُ الجھا ہو
ا
کوئی رستہ نہیں فضاؤں میں
آدمی ہے خُدا سے اُلجھا ہوا
آسماں پر ستارہ ٹوٹا ہے
کون ہے پھر قضا سےُ الجھا ہوا
اُس کی خوشبو میں اُس کی طاقت تھی
باغباں ہے صبا سے اُلجھا ہو
ا
اک گریبان دسترس میں ہے
میں اِسی بے وفا سےُ الجھا ہوا
دل کی وادی میں کوئی آھٹ تھی
کون ہے اِس صدا سے اُلجھا ہوا
اُس کو معلوم انتہا میری
اور میں ابتدا سے اُلجھا ہوا
اب کسی سر پہ بھی نہیں ساحل
وہ ڈوپٹہ حیا سے اُلجھا ہو
******* |