* تم رنگ برنگے کپڑوں میں، یوں عید من *
تم رنگ برنگے کپڑوں میں، یوں عید منانے نکلے ہو
وہ حشر کا دن یہ دن تو نہیں جو حشر اُٹھانے نکلے ہو
ہم یوں بھی تیرے عاشق تھے ہم یوں بھی تیرے عاشق ہیں
کب ہوش کا دعویٰ تھا ہم کو، جو ہوش اُڑانے نکلے ہو
یہ کھیل کرشمہ سازی کا بس ایک ادا کا حصّہ ہے
تم اتنا کہو، اس عادت میں، کس کس کو مٹانے نکلے ہو
غیروں سے بھلا کیوں عید ملیں، تم عید مِلو تو عید کریں
پر عید کے دن بھی عیدی میں تم اور ستانے نکلے ہو
الزام نہیں بدنام سہی پر تم بھی کہو ہاں دل سے کہو
پروانہ صفت ہم لوگوں کو تم بھی تو جلانے نکلے ہو
خالد ملک ساحل
|