* کسی بھی راہ پہ رُکنا نہ فیصلہ کر کے *
کسی بھی راہ پہ رُکنا نہ فیصلہ کر کے
بچھڑ رہے ہو مری جان، حوصلہ کر کے
میں انتظار کی حالت میں رہ نہیں سکتا
وہ انتہا بھی کرے آج ابتدا کر کے
تری جُدائی کا منظر بیاں نہیں ہوتا
میں اپنا سایہ بھی رکھوں اگر جُدا کر کے
مجھے تو بحرِ بلا خیز کی ضرورت تھی
سمٹ گیا ہوں میں دنیا کو راستہ کر کے
کسی خیال کا کوئی وجود ہو شاہد
بدل رہا ہوں میں خوابوں کو تجربہ کر کے
کبھی نہ فیصلہ جلدی میں کیجی ساحلؔ
مُکر بھی سکتا ہے محبوب بددعا کر کے
|