* گلی کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں، مکا¬ *
گلی کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں، مکاں اندھیرے میں سو رہے تھے
وفا کے رشتے نہ واسطے تھے گھروں کے اندر بھی فاصلے تھے
بس ایک رستہ کُھلا تھا لیکن، ہزاروں لاکھوں کے مشورے تھے
یہ خاکساری کی انتہا تھی، فلک سے آگے بھی گھر بنے تھے
میں اپنی رسموں سے کٹ گیا ہوں ہزار لہجوں میں بٹ گیا ہوں
شکست خوردہ کھڑا ہوا ہوں مرے تو قدموں میں حوصلے تھے
وہ کون ہے جو مرے دُکھوں سے سزا کے پردے اُٹھا رہا ہے
مری قیامت کے حادثے تو مرے بدن میں سنور چکے تھے
میں اپنی حالت سے ماورا تھا کسی خلا میں پڑا ہوا تھا
زمیں کے محور میں آتے آتے کئی زمانے مجھے لگے تھے
وہ خاندانوں کے سچّے جذبے، وہ سچّے لوگوں کے میٹھے جذبے
مرے بدن کا چراغ تھے وہ مرے بدن کے وہ زائقے تھے
میں آج اپنی بجھارتوں میں سوال بن کر پڑا ہوا ہوں
خدایا میرے یہ مسئلے تو مرے مقّدر کے سلسلے تھے
Khalid Malik Sahil
|