* سو تشنگی کی اذیّت کبھی فرات سے پوچ *
سو تشنگی کی اذیّت کبھی فرات سے پوچھ
اندھیری رات کی حسرت اندھیری رات سے پوچھ
گزر رہی ہے جو دل پر وہی حقیقت ہے
غمِ جہاں کا فسانہ غمِ حیات سے پوچھ
میں اپنے آپ میں بیٹھا ہوں بے خبر تو نہیں
نہیں ہے کوئی تعلّق تو اپنی ذات سے پوچھ
دُکھی ہے شہر کے لوگوں سے بدمزاج بہت
جو پوچھنا ہے محبت سے احتیاط سے پوچھ
تُو اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لے ساحلؔ
زمیں کا بھید کسی روز کائنات سے پوچھ
خالد ملک ساحل
|