* نظم محبت : سمجھوتا خالد ملک ساحل *
نظم محبت : سمجھوتا
خالد ملک ساحل
بدلتے لہجوں کی گفتگو میں
گئی رتوں کی نہ بات چھیڑو
بدل چُکے روز و شب ہمارے
رہے زمانے بھی کب ہمارے
ہمارے چہروں پہ زندگی کے تمام لہجے لکھے ہوئے ہیں
کہیں نگائیں بجھی ہوئی ہیں
کہیں تصوّر مٹے ہوئے ہیں
کوئی بھی لمحہ نہ اب جگاؤ
کہ ہجرتوں کے طویل موسم، کسی کی عادت نہیں رہے اب
ہم ایک دوجے کے رازداں ہیں
ہم ایک لہجے کی داستاں ہیں
مرے بدن کا لباس ہو تم
مری زباں میری گفتگو ہو
مری ضرورت ہو،میری عادت
تمہی ہو شاید مری محبّت
******* |