* دل بھی آنا تھا درمیان میں کیا *
دل بھی آنا تھا درمیان میں کیا
یہ بھی لکھا تھا امتحان میں کیا
لکنتیں پڑ گئیں زبان میں کیوں
آ گیا پھر کوئی ہے دھیان میں کیا
میں کھلونا تو بن گیا لیکن
مجھ کو رکھو گے اب دُکان میں کیا
ایک احسان کب تلک جھیلوں
زندگی لو گے اب لگان میں کیا
جھک گئے ہو جو غیر کے آگے
ایک تم ہی تھے خاندان میں کیا
کیمیاگر سے پوچھنا ہے مجھے
خاک ہوں میں بھی خاکدان میں کیا
تنگ و تاریک زندگی گزری
کوئی کھڑکھی بھی تھی مکان میں کیا
مجھ کو منصف سے بات کرنی ہے
وہ بھی رہتا ہے آسمان میں کیا
گالیاں دے رہے ہو تم ساحل
تیر کوئی نہیں کمان میں کیا
|