* یہ خواب بُننا، بڑا کام تھوڑی ہوتا *
یہ خواب بُننا، بڑا کام تھوڑی ہوتا ہے
اور اس سے آدمی خوشنام تھوڑی ہوتا ہے
جگائے رکھتا ہے یہ عارضی قیام مجھے
سفر ہو سر پہ تو آرام تھوڑی ہوتا ہے
پرانے گھر میں اُٹھاتے ہوئے نئی دیوار
نظر میں حبسِ در و بام تھوڑی ہوتا ہے
لگانا پڑتا ہے پندارِ جاں کو داؤ پر
کہ شعبدوں سے وہ بت رام تھوڑی ہوتا ہے
میری اُڑان، کھلا آسمان چاہے گی
کہ یہ کمال تہہِ دام تھوڑی ہوتا ہے
گر وہ دل زدگاں، ایسی بے کلی بھی کیا
کہ آہ و گریہ سرِ عام تھوڑی ہوتا ہے
خالد معین
|