* سہمے تھے لوگ کمروں میں لاشیں ادھر *
(خالدہ صدیقی(بھوپال
غزل
سہمے تھے لوگ کمروں میں لاشیں ادھر ادھر
تھم سی گئی تھی زندگی سکتہ میں تھی نظر
ہاں اوبرائے تاج حوالے تھے آگ کے
انسانیت پہ حاوی تھا دہشت بھرا قہر
بے مثل و بے نظیر جو قدرت کی دین تھی
انمول زندگی ہوئی دیکھوتتر بتر
اس آب و گل میں آکے بشر رو سیاہ ہوا
رب نے جہاں میں بھیجا تھا اس کو تو معتبر
پر امن تھی فضا جہاں رقصاں تھی زندگی
کیوں ہو گئی دھواں دھواں کیوںبن گئی شرر
دہشت گری نے امن کا یہ حال کر دیا
دھرتی لہو لہو ہوئی زخمی ہوئے جگر
یہ دورِ انقلاب بھی لایا ہمیں کہاں
بارود کے دھماکے کبھی ایٹموں کا شر
کرتی ہے عرض خالدہ رب کریم سے
خوشیوں بھرے سمن کھلے مہکے ہر اک سحر
٭٭٭
|