* دُنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا *
غزل
٭……خواجہ میر دردؔ
دُنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا
پر منہ پھرا طرف نہ کیا اس نے جو گیا
پھرتی ہے میری خاک صبا در بدر لئے
اے چشم اشکبار یہ کیا تجھ کو ہو گیا
آگاہ اس جہاں میں نہیں غیر بے خوداں
جاگا وہی ادھر سے جو موند آنکھ سو گیا
طوفانِ نوح نے تو ڈبائی زمیں فقط!
میں ننگ خلق ساری خدائی ڈبو گیا
برہم کہیں نہ ہو گل و بلبل کی آشتی
ڈرتا ہوں آج باغ میں وہ تند خو گیا
واعظ کسے ڈرا دے ہے یوم الحساب سے
گریہ مِرا تو نامۂ اعمال دھو گیا
پھولیں گے اس زباں میں بھی گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تُخم بو گیا
آیا نہ اعتدال پر ہر گز مزاج دہر
میں گرچہ گرم و سرد زمانہ سمو گیا!
اے دردؔ جس کی آنکھ کھلی اس جہان میں
شبنم کی طرح جان کو اپنی وہ رو گیا
|