* تہمتیں چند اپنے ذمیّ دھر چلے *
غزل
٭……خواجہ میر دردؔ
تہمتیں چند اپنے ذمیّ دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُدھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
آہ! بس جی مت جلا تب جانئے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولَے
ساتھ اپنے اب اُسے لے کر چلے
جوں شرر اے ہستی بے بودیاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلائو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
|