مِرے وجود میں اُترا ہے ِاستخارہ ابھی
میں مان جائوں گی کہتا ہے اِستخارہ ابھی
وفا کے باب میں میرا بھی نام شامل ہے
مِرے عُدو نے ِنکالا ہے اِستخارہ ابھی
شِکستہ ماتھے کی ِشکنیں یہ سب سے کہتی ہیں
رِیاضتوں کا سِتارا ہے اِستخارہ ابھی
ابھی سے کٹ گئیں پائوں کی بیڑیاں کیوں کر
ہوا کے دوش پہ رکھّا ہے اِستخارہ ابھی
سحَاب رات میں جلتا رہا ِمرا آنگن
درِ نجوم میں آیا ہے اِستخارہ ابھی
تمام خاروں کو بھر کے کنولؔ کی آنکھوں میں
یہ کِس نے آب کا لکھّا ہے اِستخارہ ابھی
*************