دُور اک بج رہا ہے نقاّرہ
زندگی کھو گئی مِری شاید
چاند تاروں میں گفتگو کیا ہوئی
قُمرِیوں نے بھی ہو سُنی شاید
سنگ چاروں طرف سے آنے لگے
مرِی دیوانگی ہنسی شاید
ابرِ باراں نے آ لیا مجھ کو
حبس سے دوستی ہوئی شاید
جِس کے رستے میں کہکشائیں ہیں
ظلُمتوں کی ہو وہ گلی شاید
آب میں جو کنولؔ پہ ہے کندہ
سَطر میں نے ہی تھی لکھی شاید
***********