ہجرتوں سے ِملی بشارت ہے
وصل کی آنکھ میں سخاوت ہے
دل کا آنگن مِرا ہوا پارا
چشمِ عریاں نے کی تِلاوت ہے
خواہشیں طائروں نے پہنی ہیں
باغباں سے مِلی ہدایت ہے
خواب آنکھیں بِچھا لو رستے میں
مِرے اِسلاف کی روایت ہے
حَبس کا دم نکل نہ جائے کہیں
بُجھتے سانسوں کی یہ امانت ہے
اب کِسی کا گِلہ رہا ہی نہیں
اپنے ہی آپ سے شکایت ہے
ہیں کنولؔ آب کی پناہوں میں
خاک زاروں کی ہی سِفارت ہے
**************