* ہم نفس اس چمن دہر میں کم آتے ہیں *
ہم نفس اس چمن دہر میں کم آتے ہیں
بوئے گل سے کہو ٹھرے ابھی ہم آتے ہیں
عاشقوں کی سی تجھے تاب کہاں ہے ، اے دوست
ورنہ مجھ کو بہت انداز ستم آتے ہیں
کم نگاہی بھی تری مصلحت آمیز نہ ہو
دل سے نالے میر ے لب تک بھی تو کم آتے ہیں
تری نظروں میں تو کچھ سحر ہے ظالم ورنہ
اپنے قابو میں بھی مشکل ہی سے ہم آتے ہیں
کیا برہمن میں بھی باقی نہ رہی بوئے وفا
آج کیوں لوٹ کے کعبے میں صنم آتے ہیں
ہے یہ انسان ہی وہ قبلہ برحق کہ جسے
سجدہ کرنے کے لئے دیر و حرم آتے ہیں
خوب تھا ان کی توجہ کا زمانہ میکش
اب تو شاید انہیں یاد بھی کم آتے ہیں
********************* |