* تیرے گیسو کی بو غم کے مسافر پاہی جا *
تیرے گیسو کی بو غم کے مسافر پاہی جاتے ہیں
صبا کتنا سنبھالے یہ تو کچھ لہرا ہی جاتے ہیں
نہ ہو ں خوش جب بھی نظریں کچھ نہ کچھ تو کہہ دیتی ہیں
وہ بے مہکے ہوئے کچھ پھول برسا ہی جاتے ہیں
نہیں ہے منحصر غم اور خوشی پر آپ کیوں سوچیں
میری آنکھوں میں آنسو بے سبب بھی آہی جاتے ہیں
کبھی گذرے دنوں کی یاد ان کو آہی جاتی ہے
شکایت لے کے میری پاس میرے آہی جاتے ہیں
معلم ہو ں کہ ناقد حضرت واعظ ہوں یا ناصح
نہ سمجھیں خود مگر اوروں کو تو سمجھا ہی جاتے ہیں
خوشی سے بھی دلو ںکا خون ہو جاتا ہے اے میکش
یہ پھولوں کی طرح کھلتے ہیں تو مرجھا ہی جاتے ہیں
************************** |