* سامانِ تجارت میرا ایمان نہیں ہے *
سامانِ تجارت میرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ میری شان نہیں ہے
ہر لفظ کو سینے میں بسا لو تو بنے بات
طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے
اللہ میرے زرق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں میرے مہمان نہیں ہے
ہم نے تو سمندر میں بھی رستے ہیں بنائے
یوں ہم کو مٹانا کوئی آسان نہیں ہے
میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن
میں تجھ کو خدا سمجھوں یہ امکان نہیں ہے
دو چار امیدوں کے دیئے اب بھی ہیں روشن
ماجدؔ کی حویلی بھی ویران نہیں ہے
|