* دلّی کی سرزمیں سے نکلنا پڑا مجھے *
غزل
دلّی کی سرزمیں سے نکلنا پڑا مجھے
’’میں آخری چراغ تھا جلنا پڑا مجھے‘‘
کھاتا رہا فریب سرابوں کے درمیاں
صحرا کی تپتی ریت پہ چلنا پڑا مجھے
میں بھی تو خوش مزاج تھا مغرور کیوں ہوا
لوگوں سے مل کے رنگ بدلنا پڑا مجھے
ہر غم سے بے نیاز تھی بچپن کی زندگی
ماضی کو یاد کرکے مچلنا پڑا مجھے
میں مسکرا رہا ہوں مگر دل ہے مضمحل
مجبور ہوگیا تو اُگلنا پڑا مجھے
آواز آرہی ہے یہ اپنے ضمیر سے
خوددار بن کے ہاتھ ہی ملنا پڑا مجھے
گرجاتا گر زمیں پہ تو ہنستا یہ آفتاب
مخدوم ہر قدم پہ سنبھلنا پڑا مجھے
مخدوم ارشد حبیبی
79, Noor Mohammad Munshi Lane
Howrah-711101
Mob: 9883133229
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|