* نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے *
نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں، اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں ایک جام ہوں کس کس کے ہونٹ تک پہنچوں
غضب کی پیاس لئے ہر بشر لگے ہے مجھے
تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینہ منظور
کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے
|