سنتے ہیں کہ گردش میں تھے جام بہت
میخانے سے لَوْٹے تشنہ کام بہت
دیوانے کو ہے گلشن سے بیزاری کچھ
ہے زیر دیوار انہیں آرام بہت
اس کو چے میں سوچ سمجھ کر جائے گا
جان کے دشمن بن جاتے گلفام بہت
اپنے کرتے یاد نہیں تو کیا غم ہے
میرے دشمن لیتے میرا نام بہت
شہرِ وفا میں عشق رہاہے کم قیمت
حسن کا لگتا ہر موسم میں دام بہت
آئے تھے وہ جانے کی تمہید لیے
’’آج ہے مجھکو گھر پہ ضروری کام بہت‘‘
میخانے کی راہ سے مسجد مت جاؤ
ہوجاؤگے خوشترؔ تم بدنام بہت
******************
ٍ