* کل بھی روشن تھا یونہی آج بھی تابند *
کل بھی روشن تھا یونہی آج بھی تابندہ ہوں
میں گئے وقت کا اک لمحہ آئندہ ہوں
برگ گل پر ہو کوئی قطرہ شبنم روشن
صفہ دہر پر جس طرح میں پائندہ ہوں
کس سے ہوتی ہے شب ہجر کی روداد رقم
میں تو اک حرف محبّت کا نگارندہ ہوں
ضرب احساس سے ٹوٹا ہے ہر اک تار وجود
اک رباب دل بیتاب ہوں، نالندہ ہوں
خضر بھی موسیٰ بھی میں،رہگزر شوق بھی میں
خود مسافر بھی ہوں میں خود ہی نمائندہ ہوں
ساز میں سوز ہے آواز میں باقی ہے کھنک
چند سانسوں کے تقاضے پہ ابھی زندہ ہوں
خود سے بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی منظر
آئنہ دیکھ کے میں کس لئے شرمندہ ہوں
******* |