* جہاں بھی پہنچی نظر رنگ رنگ منظر تک *
جہاں بھی پہنچی نظر رنگ رنگ منظر تک
بکھر بکھر سے گئے خواب خواب پیکر تک
قباے حرف میں معنی کا حسن ہے بیدار
مچل رہی ہے تجلّی چسم آزر تک
نہ جانے پیاس کی شدّت تھی کس قدر اس میں
وو ایک قطرہ کہ جو پی گیا سمندر تک
افق پہ پھیلا ہے شب گیر موسموں کا دھواں
ہے دھندھلی دھندھلی شفق کی حسین چادر تک
نہ جانے عقل کی کشتی کہاں ٹھکانے لگے
پگھل پگھل کے بہا جا رہا ہے پتھر تک
لہو لہان بدن تار تار پیراہن
مگر نظر سے پرے ہے نشان خنجر تک
تڑپ تڑپ کے گزاری ہے رات خوابوں نے
شکن شکن ہے مری آگہی کا بستر تک
یہ وہ جگہ ہے جہاں سمتیت بھٹکتی ہے
کوئی تو ہو جو مجھے چھوڑ دے مرے گھر تک
******* |