* ورق سنگ پہ پھر شیشے کی تقدیر نہ لکھ *
ورق سنگ پہ پھر شیشے کی تقدیر نہ لکھ
زندگی خواب ہے اس خواب کی تعبیر نہ لکھ
جذبہ شوق کی تفہیم جو چاہے کر لے
دل کی بیتاب تمناؤں کی تفسیر نہ لکھ
جو حقیقت کے تقاضوں پہ نہ پورا اترے
واقعہ ایسا پس پردہ تحریر نہ لکھ
شمع احساس جلا فکرو نظر کی لو سے
اپنے حصّے میں کوئی لمحہ شب گیر نہ لکھ
جس کی قسمت میں لکھی آبلہ پای تو نے
اس کی قسمت میں گراں باری زنجیر نہ لکھ
لوح محفوظ پہ لکھ اپنے کرم کی فہرست
یہ خودی تجھ کو مبارک مری تقدیر نہ لکھ
سوزدل بھر دے ہر اک شعڕغزل میں منظر
دامن گل پہ مگر شولہ تاثیر نہ لکھ
****** |