* ہے پرسکون ابھی بھی دل غیور مرا *
ہے پرسکون ابھی بھی دل غیور مرا
ہے پرسکون ابھی بھی دل غیور مرا
نگاہ نور تیری جلوہ زار طور مرا
تیرے خیال سے ٹکرا گیا شعور مرا
تیرے فراز پہ میرا نشیب ہے موقوف
تیری زمین سے کب آسماں ہے دور مرا
اتر سکے تو اتر تو بھی میرے صحرا میں
قدم سے اپنے یہ سینا تو کر عبور مرا
تو اپنے پردے کی خاطر نہ مجھ کو عریاں کر
تیرے ہی غیب کا امکان ہے ظہور مرا
میں تیرے طرز تغافل سے آشنا ہی سہی
تیری نگاہ تو بولے کوئی قصور مرا
ہے مجھ میں آج بھی منظر شعور خودداری
اگرچہ زخم تمننا سے دل ہے چور مرا
******* |