* زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے *
زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے
تھوڑی دھوپ جیسی ہے، تھوڑی چھاؤں والی ہے
پھر لہو میں ڈوبا ہے، آدمی کا مستقبل
یہ صدی جو آئی ہے، کربلاؤں والی ہے
سب سے جھک کے ملتا ہے، سب سے پیار کرتا ہے
یہ جو ہے ادا اس میں، یہ تو گاؤں والی ہے
اس کے ذرے ذرے میں، حسن ہے محبت ہے
یہ ہماری دھرتی تو اپسراؤں والی ہے
کس کی یاد آئی ہے، کون یاد آیا ہے
پھر ہماری آنکھوں میں رُت گھٹاؤں والی ہے
موت کی طرف منظر بھاگتی ہے تیزی سے
عمر کتنے صحت مند ہاتھ پاؤں والی ہے
|