* ارتقائے زندگی کی راہ پر مستانہ وا *
منزل لوھا ٹھیری
کہمن
بھوک
منظر:
ارتقائے زندگی کی راہ پر مستانہ وار
کرۂ ارض اور اس پر بسنے والوں کی حیات
عیش و راحت شوکت و فرحت کے متلاشی نفوس
جانتے ہیں بس تری تکمیل کو وجہِ ثبات
تو اگر بے تاب کر ڈالے تو کوئی کیوں نہ ہو
بھول جائے ذاتِ باری کو کجالات و منات
ا تو ایسا ہو کہیں بھی کوئی بھی بھوکا نہ ہو
ورنہ یہ دنیا ، یہ دنیا بھر کے جھگڑے ، واہیات
کہمن:
بھوک تو مٹ جائے ہے جب جب مزا آجائے ہے
زندگی پیاری لگے ہے خوب جینا بھائے ہے
لیکن اکثر سوچا کرتا ہوں کہ یہ آفت ہے کیا
تیرے بل پر خیر و شر کس واسطے لہرائے ہے
٭٭٭
|