* جینے مرنے کا کوئی روگ نہ پالا جائ *
غزل
جینے مرنے کا کوئی روگ نہ پالا جائے
زندگی کا نیا مفہوم نکالا جائے
آگے پیچھے مرے ہوتے ہیں اندھیروں کے ہجوم
وہ جدھر جائیں اُدھر ساتھ اُجالا جائے
سر جھکا کر کرو تسلیم جو وہ بات کہیں
حکم جیسا ہو مرّبی کا نہ ٹالا جائے
کچھ تو باقی رہے اسلاف کی غیرت کا بھرم
سر قلم کردو عمامہ نہ اُچھالا جائے
دل میں امنڈے ہے مرے غم کے تلاطم عادلؔ
اُنکی آنکھوں سے دو آنسو نہ سنبھالا جائے
****
|