* سبھی لگنے لگے ہیں اجنبی سے *
غزل
سبھی لگنے لگے ہیں اجنبی سے
محبت بڑھ گئی ہے زندگی سے
اِدھر بھی مسکراکر دیکھ لینا
گذارش ہے تمہاری سادگی سے
کبھی ہنسنا کبھی رونا پڑے گا
گذر ہوتی نہیں ہے خامشی سے
محلّے میں فقط اُس کا مکاں تھا
دھواں سا اُٹھ رہا ہے جس گلی سے
دیا جلنے نہیں دیتی ہوائیں
شکایت کیا کریں ہم تیرگی سے
قدم رسمِ زمانہ میں ہے لت پت
ابھی تک دور ہے سچ آدمی سے
کبھی ایسا ہوا ہے ہوش مندو!
اُنہیں تڑپا گیا ہوں بے خودی سے
اُدھر عادلؔ نوازش پر نوازش
اِدھر میں جاں بلب ہوں تشنگی سے
*****
|