* کس بات کا رونا ہے کس بات کی اُلجھن ہ *
غزل
کس بات کا رونا ہے کس بات کی اُلجھن ہے
اللہ کا بندہ اِک اور ایک ہری جن ہے
کیوں سوگ میں ڈوبا ہے،چہرے پہ اُداسی کیوں
کیا میری طرح تو بھی حالات سے بدظن ہے
برسات میں مفلس کے ،گھر فاقوں سے جلتے ہیں
وہ کیسے یہ جانیں کہ ،بھادوں ہے کہ ساون ہے
تقدیر کا ماتم کیوں ، سرمایہ کا رونا کیا
دنیا میں یہی دولت انسان کی دشمن ہے
صحرائے دل و جاں میں ، اُٹھتا ہے بگولا سا
لگتا ہے ببولوں پہ احساس کا دامن ہے
گھر ہے نہ کوئی در ہے ، پھرتے ہیں گدا جیسے
ایک ہاتھ میں کاسہ ہے ، اِک ہاتھ میں برتن ہے
عادلؔ سبھی سجتے ہیں ، ہے دور نمائش کا
ہر جسم دکھاوے کے عیبوں سے مزین ہے
****
|