* بچھڑجانے کے بھی اسباب ہوں گے *
غزل
بچھڑجانے کے بھی اسباب ہوں گے
کہیں سازش ،کہیں احباب ہوں گے
شجر بے سایہ ہوتے جا رہے ہیں
پرندے دھوپ سے بیتاب ہوں گے
گلو کارہ غزل گاتی ملے گی
غزل والے مگر نایاب ہوں گے
جو ذوقِ بندگی سے نا بلد ہیں
سجائے منبر و محراب ہوں گے
سفینہ لوٹ کر آئے نہ آئے
کنارے ، منتظِر گرداب ہوں گے
خرد کا پیرہن ہوگا دریدہ
بدن پہ جہِل کے کمخواب ہوں گے
نئی دنیا ، نئی تہذیب ہوگی
مگر عادلؔ سسکتے خواب ہوں گے
****
|