* کرم فرمائیں ، بے کس کی دعا لیں *
غزل
کرم فرمائیں ، بے کس کی دعا لیں
زمیں پر خلد کی بنیاد ڈالیں
اِدھر صحرا ، اُدھر شہرِ طرب ہے
کہو سکّہ ہوا میں ہم اُچھالیں
دُرِ نایاب ہے جنسِ محبّت
کہیں مل جائے ، قصرِ جاں سجالیں
تیری یادوں کے جگنو سے شبِ غم
چلو تنہائیوں کو جگمگا لیں
پھر ہونگے ہم ، نہ میخانہ ، نہ ساقی
ذرا دو گھونٹ پی کر ڈگمگا لیں
یہی ہے حکم ہم تیشہ گروں کو
چٹانیں کھود کر نہریں نکالیں
بہت سنتے ہیں عادلؔ نام اُن کا
مسیحا ہیں تو مرنے سے بچالیں
****
|