* خود سے تنگ آئے ہوئے لگتے ہیں *
غزل
خود سے تنگ آئے ہوئے لگتے ہیں
کتنے دھندلائے ہوئے لگتے ہیں
دور پتھر کا پلٹ کر آیا
لوگ پتھرائے ہوئے لگتے ہیں
کوئی کیا روٹھ گیا ہے اُن سے
اِتنے گھبرائے ہوئے لگتے ہیں
یاد آیا ہے انہیں عہدِ وفا
خود سے شرمائے ہوئے لگتے ہیں
شب گذیدہ ہے دمک چہرے کی
آپ گہنائے ہوئے لگتے ہیں
جانے خوشبوئوں پہ کیا کیا گذری
پھول کمھلائے ہوئے لگتے ہیں
ہم ہی معتوب نہیں ہیں عادلؔ
وہ بھی ٹھکرائے ہوئے لگتے ہیں
****
|