* گفتگو بحث کی حد میں آئی *
غزل
گفتگو بحث کی حد میں آئی
آپ کی بات سند میں آئی
بے وفائی کی دلیلیں کیا دوں
ہر خطا آپ کی ، رد میں آئی
دل سے جس وقت پکارا رب کو
غیب سے فوج مدد میں آئی
یاد آئے وہ رسولِؐ عربی
اِک صدا سی جو لحد میں آئی
میری شہرت کو نظر لگنی ہے
یہ بھی اب دامِ حسد میں آئی
لاکھ مہکیں میری غزلیں لیکن
داد نہ بزمِ خرد میں آئی
ذہن و دل ٹوٹ چکے ہیں عادلؔ
سانس بھی وقت کی زد میں آئی
****
|