* مخالفت کا نیا اِک جواب رکھنا ہے *
غزل
مخالفت کا نیا اِک جواب رکھنا ہے
کہ سنگ و خِشت کے بدلے گلاب رکھنا ہے
رفاقتوں سے ترا دل بھی بھر گیا ہوگا
تری خوشی کے لئے اجتناب رکھنا ہے
گئے دنوں کی حقیقت کو روئیے کب تک
سجا کے پلکوں پہ کوئی تو خواب رکھنا ہے
جو بے لباسی چلی آرہی ہے مغرب سے
نگہ کی پاکی کی خاطر حجاب رکھنا ہے
برائے رخَتِ سفر دوستوں کی یادوں کو
بچا کے اے دلِ خانہ خراب رکھنا ہے
کبھی تو عہدِ مُکافات آئے گا عادلؔ
بدن کے زخم کا گن کر حساب رکھنا ہے
****
|