* تیرا دامن چھو کے جب آئی ہوا *
غزل
تیرا دامن چھو کے جب آئی ہوا
میری تنہائی کو مہکائی ہوا
سانس لینا بھی بہت دشوار تھا
جی اُٹھا بیمار کیا لائی ہوا
گنگناتی پھر رہی تھی چار سُو
بے سروں میں دھوم مچوائی ہوا
آنچ کچھ کچھ تھی گلابی ہونٹ کی
کتنے ارمانوں کو پگھلائی ہوا
مستیاں بھی تھیں سبک رفتار میں
میکشوں کو خوب للچائی ہوا
نازنینوں کو سنورنا آ گیا
زلفِ برہم ایسی لہرائی ہوا
اہلِ دل کی بے قراری الحذر!
جانے کیا کیا خواب دکھلائی ہوا
میں نے پوچھا اسکے بارے میں کہو
پہلے سنکی اور شرمائی ہوا
یہ حقیقت ہے کہ افسانہ ہے یہ
جو کہ عادلؔ آکے بتلائی ہوا
****
|