* یہ دنیا سرپھری ہے جان رکھنا *
غزل
یہ دنیا سرپھری ہے جان رکھنا
کھرے کھوٹے کی بھی پہچان رکھنا
ہے اس میں زندگی کا راز مضمر
تو دل میں اِک نہ اِک ارمان رکھنا
جہاں جس حال میں تھا بس وہیں تھا
نہیں چاہا کبھی احسان رکھنا
تمہارے حلق میں کانٹا ہو ، لب پر
دکھاوے کے لئے مسکان رکھنا
رکھے جاتے تھے مُلّاؔ اور بربلؔ
چلن اب ہوگیا شیطان رکھنا
نجاست جسم کی ہوتی ہے عادلؔ
زباں پر سیکھئے قُرآن رکھنا
****
|