* میں اُن کو جو سنانا چاہتا ہوں *
غزل
میں اُن کو جو سنانا چاہتا ہوں
اُسے میں بھول جانا چاہتا ہوں
یہ دنیا بورڈ پر سو بار لکھ کر
میں ڈسٹر سے مٹانا چاہتا ہوں
بہت تیزی ہے منڈی شاعری کی
کلام اپنا بھُنانا چاہتا ہوں
تعاون چاہئے دانشوروں کا
میں اردو کو سجانا چاہتا ہوں
مجھے جو کچھ سکھایا جا چکا ہے
بروئے کار لانا چاہتا ہوں
بہت سنسان راہیں بھوکتی ہیں
میں گھر جب لوٹ جانا چاہتا ہوں
اے دنیا بس تجھے لمحوں کی خاطر
گلے سے میں لگانا چاہتا ہوں
بہت ہوں منحرف تنہائیوں سے
میں خود سے روٹھ جانا چاہتا ہوں
بہت دن ہوگئے بچپن کے عادلؔ
وہی لمحہ سُہانا چاہتا ہوں
****
|