* اُنہیں ناراض کرتے ہیں ، نہ ہم ناشا *
غزل
اُنہیں ناراض کرتے ہیں ، نہ ہم ناشاد کرتے ہیں
چلو دکھلائیں کیسے وہ ہمیں برباد کرتے ہیں
کبھی تنہائیاں ہوتی ہیں محوِ گفتگو ہم سے
اُنہیں سے پوچھنا ، ہم اُن کو کتنا یاد کرتے ہیں
گھٹا کے منتظِر رہتے نہیں ہیں کوئی موسم ہو
لہو سے سینچتے ہیں اور چمن آباد کرتے ہیں
کبھی نادِم تو ہوں گے آپ اپنی بے وفائی پر
یہی تو سوچتے ہیں ہم کہاں فریاد کرتے ہیں
یہاں پَر مارنا بھی جرم ہے عادلؔ سنبھل جائو
عمل یہ بھی وہی کرتے ہیں جو صیّاد کرتے ہیں
****
|