* نہ آئی بس میں سطحِ آب اب تک *
غزل
نہ آئی بس میں سطحِ آب اب تک
وہی ہے موج اور سیلاب اب تک
مسلسل جستجو سی ہو رہی ہے
کوئی تو ہے جو ہے نایاب اب تک
مرادیں کب ہوئیں پوری کسی کی
بہت دیکھے گئے ہیں خواب اب تک
گیا سو آج تک لوٹا نہیں پھر
دئے کو روئے ہے محِراب اب تک
لہو اتنے نچوڑے جا چکے ہیں
ہوئی نہ کِشتِ جاں سیراب اب تک
میں کیسے چھیڑتا سازِ محبت
کسی نے دی نہیں مِضراب اب تک
ہوئی تھی گفتگو کچھ ناقدانہ
خفا عادلؔ سے ہیں احباب اب تک
****
|