* وہ جو بازی گرِ حالات کے ہارے ہوں گے *
غزل
وہ جو بازی گرِ حالات کے ہارے ہوں گے
غیرتِ جذبۂ احساس کے مارے ہوں گے
ایسے خوش فہم امیروں سے گلہ کیا رکھنا
جو کبھی خود کے نہ ہو پائے ہمارے ہوں گے
مجھکو سیلابِ بلا چاہے جہاں لے جائے
اِک نہ اِک روز بغلگیر کنارے ہوں گے
میرے خوابوں کے لگے ہوں گے ہزاروں پیوند
اُنکے آنچل میں ستارے ہی ستارے ہوںگے
کل مرا ذکر نہ ہوگا کہیں اخباروں میں
نام تاریخ کے پنّے پہ تمہارے ہوں گے
گردِ ناکامئی پیہم کے سبب ہی عادلؔ
نقشِ دل بجھُ گئے ہوںگے جو اُتارے ہوںگے
**** |