* اپنے گھر میں ہیں اجنبی جیسے *
غزل
اپنے گھر میں ہیں اجنبی جیسے
تنہا تنہا سا ہر کوئی جیسے
ساتھ رہتے ہوئے بھی لگتا ہے
اُنکو دیکھا نہیں کبھی جیسے
ہوگئے لوگ کیا سے کیا لیکن
آج بھی ہم ہیں آدمی جیسے
کیا محبت نے کی اثر دل پر
چھِن گئی مجھ سے زندگی جیسے
پیر و ملا و زاہد و ناصح
اِن کی مٹھی میں ہیں سبھی جیسے
منحرف ہوگئے وفا والے
پیار میں ہوگئی کمی جیسے
اُن کا چہرہ گلاب ہے عادلؔ
ہونٹ ہیں اُن کے پنکھڑی جیسے
****
|