* ہوئی جو شام تری یاد جگمگانے لگی *
غزل
ہوئی جو شام تری یاد جگمگانے لگی
بہت اُداس طبیعت تھی کچھ ٹھکانے لگی
رواں دواں تھی تلاطم میں بے خطر کشتی
کنارے آئی جو ساحِل کے ڈگمگانے لگی
میں زندگی سے بہت دور بھاگنا چاہا
قدم قدم پہ تیری یاد آزمانے لگی
کوئی تو تھا جو دلاسے کی دے گیا سوغات
کسی کی بات مرے دل کو گدگدانے لگی
میں اپنے ماضی کو چاہا کہ بھول جائوں مگر
جو بات تجھ سے تھی منسوب یاد آنے لگی
****
|