* طلب کا ہاتھ بڑھائو تو اِس قرینے سے *
غزل
طلب کا ہاتھ بڑھائو تو اِس قرینے سے
کہ دینے والا شرابور ہو پسینے سے
یہ گرم لوُ ، یہ بگولوں کا رقص ، بادِ سموم
پناہ چاہیں سبھی جون کے مہینے سے
جنوں کا حوصلہ پتوار بن گیا یارو
مقابلہ تھا تلاطُم کا جب سفینے سے
سجا کے تاج میں رکھنا یہ کوہِ نور اپنا
ہمارے خواب چمکتے ہیں آبگینے سے
ہمارے لب پہ ہنسی کا نزول کیا ہوگا
ہزاروں زخم پروئے گئے ہیں سینے سے
یہ سچ کہا کہ گنہگار ہوں مگر عادلؔ
مرے یقین کا رشتہ بھی ہے مدینے سے
****
|