* زندگی وقفِ غم ہی سہی *
غزل
زندگی وقفِ غم ہی سہی
چشم نم ہے تو نم ہی سہی
کیجئے اِک نگاہِ کرم
یا نہیں تو ستم ہی سہی
ہو تسّلی کی صورت کوئی
ایک جھوٹی قسم ہی سہی
لذتِ بندگی کے لئے
سامنے اِک صنم ہی سہی
دوستوں کو نہ ٹھکرائے
دشمنوں پر کرم ہی سہی
کھو نہ جائیں کہیں منزلیں
فاصلہ دو قدم ہی سہی
ایک دن ہوں گے وہ ملتفت
یہ ہمارا بھرم ہی سہی
کچھ تو عادلؔ سنائو انہیں
اپنی رودادِ غم ہی سہی
****
|